الفقہ العام للدین کی تھوڑی سی تفصیل
)گذشتہ سے پیوستہ(
৭- اعدائےاسلام کے رد میں لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ
اعدائےاسلام کی طرف سے وارد کیے ہوئے بے جا اور باطل عمومی اعتراضات کے جواب میں لکھی ہوئی منتخب کتابوں کا مطالعہ بھی تفقہ حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے، اس بارے میں درجِ ذیل کتابوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:
ا- اشرف الجواب لشفاء المرتاب، حکیم الامت حضرت تھانویؒ
২- الانتباہات المفيدة عن الاشتباهات الجديدة، لہ ایضاً
۳- اسلام اور دورِ حاضر کے شبہات ومغالطے، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
اور ہرایک اعتراض کے جواب میں لکھی گئی مستقل کتابیں ۔
৮- دین کے مختلف شعبوں اور شعبہائے حیات کے مختلف پہلوؤں میں اسلام کی ہدایات سے متعلق لکھی ہوئی منتخب کتابوں کا مطالعہ
৯-عصر حاضر کے مسائل و افکار کا مطالعہ
جدید موضوعات کی کتابوں اور مجموعوں کے علاوہ اس کے لیے اپنے زمانے کے دنیا بھر کے مجلات اور ماہ ناموں پر نظر رکھنا ضروری ہے ، خاص طور پر تحقیقاتی اداروں کے مجلات قابل ِتوجہ ہیں۔
۱۰-قواعد ِشریعت ، کلیاتِ دین اور علوم ِمقصودہ میں سے ہر فن کے مبادیات کا مطالعہ
اس فہرست میں ذکر کردہ کتابوں کے نام درج کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ طلبۂکرام کو عصر حاضر کے زیر بحث مسائل و موضوعات کا علم ہو جائے، یہاں ذکر کردہ اہر موضوع پر مختلف زبانوں بالخصوص عربی اور اردو میں دس دس بیس بیس بلکہ بعض موضوعات پر سو سے زائد کتابیں بھی موجود ہیں، لیکن ہر کتاب کام کی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر کتاب سے تفقہ پیدا ہوتا ہے، پھر وقت میں اتنی گنجائش کہاں کہ ہر کتاب کو پڑھا جا سکے، اس لیے انتخاب کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
الفقہ العام کے سلسلے میں اس نوع کے موضوعات اور ہر موضوع سے متعلق چیدہ چیدہ کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر ایک متخرج کو جو قدوہ کے مقام پر فائز ہے “من لم يعرف أهل زمانه فهو جاهل” کا مصداق بننا پڑتا ہے ، اصول افتاء کی کتابوں میں مذکور اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدا عالم کو اپنے زمانے کی اصطلاحات ، اہلِ زمانہ کے عرف وعادات ، زمانے کے مسائل و مشکلات اور ان کے حل، اہل زمانہ کے طریقۂ افہام و تفہیم اور زمانے کے فتنوں کے بارے میں باخبر رہنا ضروری ہے۔
زمانے کی اصطلاحات معلوم نہ ہونے کا ایک وبال یہ ہوگا کہ ہم ،لوگوں کی بات سمجھنے سے عاجز ہوں گے ، اس طرح قوم اور علماء کے درمیان بعد بڑھتا رہے گا۔ دوسر او بال یہ ہوگا کہ شریعتِ اسلام جو تا قیامت پیدا ہونے والے مسائل و مشکلات کا حل پیش کرنے کی متکفل ہے اس میں حل موجود ہونے کے باجود ہم اسے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکیں گے؛ کیوں کہ اختلاف اصطلاحات کی وجہ سے عصری عناوین کتاب وسنت یا کتب ِفقہ میں نہیں ملیں گے اور اصطلاحات کی حقیقت یا قواعد الفقہ کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کے احکام کا معلوم کرنا ممکن نہیں ہوگا،جس کے نتیجے میں بے دین لوگوں کو شریعت پر نقص کا الزام دینے کا موقع ملے گا یا شریعت کے ثابت و محکم احکام میں تغیر وتبدل کا بہانہ ملے گا۔
الغرض دین و شریعت کی عمومی فقہ کے سلسلے میں ایک مقتدا عالم کے لیے عصری مسائل و مشکلات کا حل، عصری فتنوں ، عصری عناوین میں پیش کردہ شرعی احکام سے متعلق مضبوط اور مستند علم ہونا ضروری ہے۔
১১- اہل ِفن ، اہلِ دل کی صحبت اور تقوی وطہارت کا اہتمام۔
دین و شریعت کی عمومی فقہ کے سلسلے میں گیارہواں اور سب سے اہم کام وہ ہے جو ہر علم وفن میں اختصاص کے حصول کے لیے لازمی شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ اہل دل ، اہل فقہ اور با خبر لوگوں کی صحبت اور تقوی وطہارت ظاہرہ و باطنہ کا اہتمام ۔
حدیث شریف میں ہے “مَنْ يرِدِ الله به خيراً يُفَقههُ في الدين، وإنما أنا قاسمٌ، والله يُعطي” ( صحیح بخاری ) اور دینی علوم و معارف کے سلسلے میں سنت اللہ یہ ہے کہ “لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ” دوسری حدیث میں ہے: “أيُّ جلسائِنا خيرٌ قال مَن ذكَّركم باللهِ رُؤيتُه وزاد في علمِكم منطقُه وذكَّركم بالآخرةِ عملُه” ۔
رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا: “يَا أَيهَا النَّاس إِنَّمَا الْعلم بالتعلم وَالْفِقْه بالتفقه وَمن يرد الله بِهِ خيرا يفقهه فِي الدّين” ( ابن ابی عاصم ، طبرانی؛ فتح الباری:۱/۱۹۴)
عمومی فقہ اور اس کے مراحل کیا ہیں؟ اس کا ایک تصور پیدا ہونے کے لیے یہ کافی ہو گا ان شاء اللہ، اور آخری مرحلہ مرحلۃ التخصص ہے، یہ مولانا طالب علموں کا کام ہے، اب آپ سوچ لیں کہ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو درس نظامی اور تخصصات کے بعد بھی الفقہ العام کے مرحلۃ التخصص سے کتنا دور رہتے ہیں۔ ایک عالم کے لیے یہ سب سے ادنی مرتبہ ہے کہ اسے الفقہ العام للدین میں مرحلۃ الاختصاص حاصل ہو اس کے بعد پھر علم وفقہ کے مراتب ہیں یزید اللہ من یشاء ما یشاء۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين.