الفقہ العام للدين : چند مختصر معروضات
قال الله تعالى: فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ. (سورة التوبة [٩]: ١٢٢)
الفقہ العام للدين يعني دين کي عمومي سمجھ اور فقاہت؛ کوئي شک نہيں کہ ہر مومن کو الفقہ العام للدين حاصل ہونا ضروري ہے ، اور اس کا علم نہ ہونا بہت بڑے خسارے کي بات ہے، اس عمومي فقہ کے بہت سے مراحل ہيں اور بعض مرحلوں کا علم تو فرض عين ميں داخل ہے، ان مختلف مراحل کي تفصيل بہت طويل ہے،اس وقت اس موضوع سے متعلق صرف چند باتيں ذکر کريں گے :
جو چيزيں الفقہ العام للدين کے ليے ضروري ہيں
১-الفقہ العام للدين کا سب سے پہلا رکن يہ ہے کہ آدمي کے ذہن ميں اسلام کا جامع اور منقح تصور موجود ہو، اور يہ تبھي ہو سکتا ہے جب دوسري چيز حاصل ہو ۔
২- دوسري چيز يہ ہے کہ جو علم فرض عين کے درجے ميں ہے اسے خوب سمجھ کر حاصل کيا ہو۔
৩-تيسري چيز يہ ہے کہ آداب ، اخلاق اور افکار کے بارے ميں اور دين کي بنيادي چيزوں کے بارے ميں خاص طور پر باخبر ہو۔
৪-چوتھي چيز يہ ہے کہ مزاج شريعت سے واقف ہو۔
৫-پانچويں چيز يہ ہے کہ اپنے زمانے کے حالات سے باخبر ہو۔
الفقہ العام کي يہ پانچ بنيادي چيزيں ہيں جن کا حاصل کرنا ضروري ہے، جسے ان چيزوں کا علم نہيں ہے ، اسے الفقہ العام للدين کا علم حاصل ہونا مشکل ہے ، اور جس قدر ان چيزوں سے واقفيت ہوگي، اسي قدر الفقہ العام کے بارے ميں اس کا علم ہوگا۔
ان پانچ چيزوں ميں بھي تفصيل ہے، ليکن بظاہر يہ چيزيں في الحال محتاج شرح نہيں ہيں، صرف مزاج شريعت کے بارے ميں عرض يہ ہے کہ اس کا تلفظ تو بہت ہوتا ہے ليکن اس کي حقيقت اور صحيح تصور سے بہت کم لوگ آشنا ہيں۔
اسلام کے جامع اور منقح تصور کي وضاحت کے ليے کتا بيں موجود ہيں، جو اگرچہ بہت زيادہ تو نہيں ہيں ليکن بقدر ضرورت موجود ہيں، البتہ مزاج شريعت سے متعلق جامع اور واضح گفتگو کم کہيں ملتي ہے، حضرت مولانا سيد ابوالحسن علي ندوي رحمہ اللہ کي کتاب “دستور حيات”کے مقدمے ميں مزاج شريعت کي شان دار شرح موجود ہے۔ اس کے مطالعے سے ان شاء اللہ مزاج شريعت کے بارے ميں ضروري علم حاصل ہو جائے گا، اس کا بھي علم حاصل ہوجائے گا کہ مزاج کا مفہوم کيا ہے اور يہ کہاں سے حاصل کيا جائے۔
ان پانچ چيزوں ميں سب سے زيادہ مشکل پہلي اور چوتھي چيز ہے، پانچويں چيز بھي بعض لحاظ سے اپني جگہ مشکل ہے ليکن وہ دو چيزيں ايسي ہيں کہ بے شمار لوگ ان سے آشنا نہيں ہيں، مزاج شريعت سے آشنا نہيں ہيں، دين کا جامع منقح تصور ذہن ميں نہيں ہے، کون سي عبارات اور تعبيرات دين کے صحيح تصور کے منافي اور خلاف ہيں ان کي تميز نہيں کر سکتے ۔
فقہ عام کيسے حاصل ہوگي؟
دوسري بات يہ بيان کرني ہے کہ فقہ عام کيسے حاصل ہوگي؟ اس کے ليے چھ چيزيں ضروري ہيں :
১- فرض عين علم کي تحصيل، تعليماً و تربيةً، از اہل فقہ واہل دل
২-صحبت اہل دل
৩-صحبت اہل فقہ واہل اعتدال
৪- صحبت اہل فن
৫- تقوي و طہارت
۶- پاکيزہ مطالعہ
غور کيا جائے تو ان چيزوں ميں مزيد اضافہ بھي ہو سکتا ہے، بہر حال بنيادي طور پر تفقہ کے ليے يہ باتيں ضروري ہيں۔
ميں نے ايک مضمون لکھنا شروع کيا تھا جس کا عنوان تھا “علوم مقصودہ ميں ترقي ، ايک مختصر راہ عمل” اس ميں ايک عنوان ہے: “علوم عاليہ کے اہم انواع” ۔ ہمارے ہاں يہ عرف ہے کہ علوم کي دو بڑي قسميں کي جاتي ہيں، علوم عاليہ اور علوم آليہ، ليکن کون کون سے علوم، علوم عاليہ ميں شامل ہيں اور کون سے علوم آليہ ميں، اس بارے ميں غلط فہمي پائي جاتي ہے، عام طور پر يہ سمجھا جاتا ہے کہ علوم عاليہ صرف تين ہيں: قرآن، حديث اور فقہ، کسي نے يہ شعر بھي بنا ديا ہے:
علم دين فقہ ست تفسير و حديث
ہرچہ خواند جز ازيں گردد خبيث !!
اصولي طور پر تو يہي تين ہيں، بلکہ اگر ديکھا جائے تو صرف قرآن کريم ہي تمام علوم کي اصل ہے، اور حديث وسنت قرآن کي عملي تعبير اور نقشہ ہے، جو وحي پر مبني ہےاور مستقل حجت شرعيہ ہے،اور فقہ ان سب کا مفصل، مرتب اور مدون شکل ہے،جو شرع منزل اور شرع مؤول، فقہ متوارث اور فقہ النوازل سب کا جامع ہے۔
ليکن اس اجمالي بات سے بہت سے علوم مقصودہ جو انھي تين امور کے اجزاء ہيں، ذہن سے اوجھل ہو جاتے ہيں، اور ان کو ايک زائد چيز خيال کر ليا جاتا ہے، چناں چہ اس کا قرينہ يہ بھي ہے کہ ہم جو فہرست بيان کريں گے، ان ميں سےکئي نام ايسے ہيں جنھيں علومِ عاليہ ميں ديکھ کر آپ کو تعجب ہو سکتا ہے؛ ليکن اگر آپ نے تامل سے کام ليا تو ان شاء اللہ بات واضح ہو جائے گي، اشکال رفع ہو جائے گا۔
علوم مقصودہ کے انواع
وہ فہرست يہ ہے:
ا- قرآن کريم
۲- تفسير و علوم القرآن
৩- حديث وسنت
৪- اصول حديث، علوم الحديث اور فقہ الحديث
৫- سيرت النبي صلي اللہ عليہ وسلم
৬- حيات صحابہ اور تاريخ خلفائے راشدين
৭- تاريخ خير القرون وملوک عدول
৮- تاريخ مجددين واعمال تجديد
৯-عقيدة السلف اور علم اصول الدين
১০- علم الاخلاق اور تزکيہ واحسان
১১-اسلامي سياست اور احکام خلافت
১২- الفقہ العام لدين الاسلام و شريعتہ
১৩-الفقہ الاسلامي اور علوم الفقہ
১৪-علم المواقيت ومعرفة القبلة
১৫-علم الاديان والفرق
১৬- علم الجد ال بالتي ھي احسن
১৭-علم اسرار الشريعة
১৮-علم الجغرافية (کم از کم قرآن، حديث، سيرت، اور اسلامي تاريخ سے متعلق حصہ)
১৯-تاريخ الاسلام والمسلمين
২০-الآداب الشرعية يا آداب زندگي
২১-حکايات وواقعات سلف وصلحائے خلف
تفقہ في الدين کے اگلے مراحل کے ليے سارے ہي علوم عاليہ پر نظر ہونا ضروري ہے، ليکن ابتدائي مرحلے ميں بھي ان کے بارے ميں تھوڑا بہت استئناس ضروري ہے۔ ان شاء اللہ العزيز تفصيلي مذاکرہ آئندہ قسطوں ميں ہوگا ۔
(جاري ہے)